یہ زندگی نہیں، صرف بقا ہے

📅 6 جولائی، 2025

یہ زندگی نہیں، صرف بقا ہے

یہ زندگی نہیں، صرف بقا ہے

دنیا نے غلامی کے انداز بدل دیے ہیں۔ اب نہ کسی کے پاؤں میں بیڑیاں ہیں، نہ کسی کے گلے میں زنجیر۔ مگر غلامی آج بھی زندہ ہے — بس اس کا نام بدل گیا ہے: "تنخواہ دار زندگی"۔

تنخواہ: ایک محفوظ جال

کہتے ہیں کہ انسان کو زندہ رکھنے کے لیے دو وقت کی روٹی کافی ہوتی ہے، اور سرمایہ دار تمہیں بالکل وہی دیتا ہے — اتنا کہ تم بھوکے نہ مرو، لیکن اتنا کبھی نہیں کہ تم آزاد ہو کر جینا شروع کر سکو۔ یہ کوئی سازش نہیں، ایک نظام ہے۔ ایسا نظام جو تمہیں پوری زندگی کام، کرایہ، بل اور قسطوں میں اُلجھا دیتا ہے۔ تمہارا ہر دن بس اتنا ہوتا ہے کہ کل دوبارہ کام پر جا سکو۔

جوانی قسطوں پر گروی

تم ہر صبح اٹھتے ہو۔ دفتر کا رخ کرتے ہو۔ دن بھر اپنی توانائی، خواب، صحت اور جوانی ایک تنخواہ کے وعدے پر گروی رکھتے ہو۔ شام کو گھر لوٹتے ہو، اور تمہیں بس اتنا ملتا ہے کہ اگلی صبح دوبارہ یہی سب دہرا سکو۔ یہ زندگی نہیں۔ یہ محض بقا ہے۔ اور بقا، آزادی نہیں ہوتی۔

آزادی کا خواب کیوں بکتا نہیں؟

ہمیں سکھایا گیا ہے کہ اچھی نوکری حاصل کرو، مہذب لباس پہنو، ہر مہینے تنخواہ لو، EMI پر گاڑی خریدو، چھٹی والے دن Netflix دیکھو — بس یہی "کامیابی" ہے۔ لیکن دل کے کسی کونے میں ہر انسان جانتا ہے کہ وہ قیدی ہے۔ کبھی قرضوں کا، کبھی مجبوریوں کا، اور اکثر صرف "سوسائٹی کی نظر" کا۔

کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

غور کرو تو ہم نے اپنی مرضی کی زندگی بیچ کر ایک محفوظ سی بےحسی خرید لی ہے۔ ہم "کام سے محبت" کا دکھاوا کرتے ہیں، لیکن اندر سے ہر شخص کسی اور زندگی کا خواب دیکھ رہا ہوتا ہے — جہاں وقت اس کا اپنا ہو، فیصلے اس کے اپنے ہوں، اور نیند کی قیمت نہ ہو۔

اختتامیہ

دنیا میں سب سے بڑی دولت کیا ہے؟ آزادی۔ مگر افسوس، ہم نے اپنی آزادی قسطوں میں بیچ دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی زندہ ہیں — یا بس زندہ رہنے کی اداکاری کر رہے ہیں؟ اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی، تو خود سے ایک سوال ضرور کریں: کیا میں اپنی زندگی کا مالک ہوں؟ یا صرف ایک تنخواہ دار غلام؟